منوں مٹی تلے اپنی گیارہ سالہ بیٹی کو دبانے کے باوجود بھی زندہ رہنا زندگی کا بہت بڑا معجزہ ہے، پڑھیۓ ایک دکھی ماں کی کہانی

0
1,423 views
Spread the love
یہ ایک بہت بہادر دلیر اور حوصلہ مند ماں کی کہانی ہے جو کہ ھمارے پاس سوشل میڈیا کے ذریعے سےپہنچی ہےھم اس کہانی کو اپنی ویب سائٹ پر ان ہی کی زبانی آپ تک پہنچائيں گے۔
میں تقریبا نو ماہ کے بعد اس قابل ہوئی ہوں کہ اپنی اکلوتی، خوبصورت،اور انتھایئ پیاری بیٹی کے بارے میں سب کو بتا سکوں کہ میری بیٹی جو نومحض نو سال کی تھی وہ میرا پیار، میری خوشی اورمیرا سب کچھ تھی۔
اچانک ایک ایسی صبح آئی جومیرے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوئی کہ اس نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا آج میں اور بکھری ہوئی روح اور بہت دکھی دل کے ساتھ تنہا رہ گئ ہوں اس کا اور میرا ساتھ میرے لیے بہت قیمتیی، خوبصورت اور حسین تھا مگر اس کی جدائی بہت شدید اور المناک ہے۔ اس حادسے سے پہلے ہم ایک بہت خوشحال گھرانہ تھے جس میں میں میری بیٹی اور میرا بیٹا میرے ساتھ تھے ۔
میری بیٹی ماہ وین کے جدا ہونے سے قبل ہماری زندگی ایکانتہائ مثالی زندگی تھی ہماری گہری محبت کی محلے بھر میں مثالیں دی جاتی تھیں محلے کے لوگ اکثر میرے بچوں کی اچھی تربیت اور ان کے اچھے اطوار کی مثالیں دیا کرتے تھے۔

2019جولائ میں جب ایک دن ہم پکنک پر گئے ہوۓ تھے تو وہاں پر ماہ وین نے مجھ سے شکایت کی کھ اسے سانس میں تنگی محوسوس ہو رہی ہے ۔ وہ بہت خوش تھی واٹر پارک میں ادھر ادھر دوڑتے بھاگتے اورسلائڈز لیتے ہوئے یہ پہلی شکایت تھی اسکی اپنی صحت کی حوالے سے جو اس نے مجھ سے کی اور اسکے بعد ہفتوں تک اسنے دوبارہ ایسا موقع نہیں آیا ۔
اس کے بعد اگست میں اس کے مسوڑھوں میں بھی سوزش ہوگئی اور ساتھ ہی ہلکا سا بخار بھی ہو گیا اور میں اس کو ڈاؤ ہسپتال لے گئی جہاں پر ڈاکٹر نے معائنے کر نے کے بعد ہمیں بتایا کہ یہ عقل داڑھ کے نکلنے کے سبب ہے اور اس دوران بھی وہ باقاعدگی سے اسکول بھی جاتی رہی ۔ اور بہت چاک و چوبند تھی اورعید الاضحیٰ کے موقع پروہ اپنے بکرے کے ساتھ بھی کھیلتی رہی اور میرے ایک کزن کی شادی پر بھی اس نے پربہت جوش انداز سے شرکت کی۔

مزید پڑہیے: لڑکیوں کے ایسے نام  جیسا کہ جنت کا پھول وغیرہ، جن کے معنی سن کرآپ ضرور اپنی بیٹیوں کے نام رکھنا چاہیں گے


اتوار یکم ستمبر کو وہ دن بھراپنے اسکول میں ہونے والے ماہانہ ٹیسٹوں کی تیاری ھی کرتی رہی مگر پھر2 ستمبر کو وہ اپنی طبعیت کی خرابی کیوجہ سےاسکول نہ جا پائی جبکہ اس نے اسکول کے لیے یونیفارم بھی پہنا مگر پھر سانس میں بھت تنگی کے باعث اسکول نہ گیئ ۔جب میں اسے ہسپتال لے کر گئی تو مجھے یقین تھا کہ اسکے الم غلم کھانے کے سبب اس میں وٹامن بی 12 کی ہی کمی ہو گئی ہے جس سے اسے سانس لینے میں بہت سخت تکلیف ہو رہی ہے۔
ڈاکٹروں نے کچھ ٹیسٹ کروانے کو کہا اور بعد میں ڈاکٹروں کے مطابق میری پیاری بیٹی ماہ وین ایکیوٹ مائی لوائد لیوکیمیا جو ایک موذی اور جان لیوا مرض ہے اس میں میں مبتلا ہے اوریہ بات سن کر میرے ہوش گم ہو کر رہ گۓ۔ میرا دل اور ذہن اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے بالکل تیار نہ تھا کہ میری ہنستی مسکراتی بچی ماہ وین کینسر جیسے جان لیوہ مرض کا شکار ہے۔
میں بہت کمزور ماں ثابت ہوئی ماہ وین کےلیے۔ میں ماہ وین کو کھونےکے تصورسے بھی ڈر گئی تھی اور میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ مگر اس حوالے سے میری بچی مجھ سے بہت زیادہ دلیر ثابت ہوئی کچھ لوگ دنیا میں ایسے ہی ہوتے ہیں جو کہ آتے توانتہایی کم وقت کے لیے ہیں مگر کام وہ بڑے بڑے کر کےجاتے ہیں ماہ وین بھی ایسی ہی تھی۔
اس نے اپنی زندگی کی آخری پکنک یتیم خانےمیں یتیم بچوں کے ساتھ منائی کیونکہ ہم خدا کی بستی اور نیوکراچی جیسے علاقوں کےمقیم تھے جہاں ھر وقت پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہےتو وہاں ماہ وین ہمیشہ لوگوں کو پانی کا احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے کا درس دیتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ اپنی بیماری کے باوجود انڈس ہسپتال کے بلڈ بنک کی جانب سے خون کے عطیات جمع کرنے کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی۔
اس کی قربت دین سے بھی بہت زيادہ تھی اس نے رمضان کے تمام روزے رکھے اور پندرہ شعبان کی ساری رات جاگ کر سو نفل بھی ادا کیے۔ اس نے قبرستان جا کر اگست کے آخر میں اپنی قبر کی جگہ بہت دلیری سے منتخب کی۔ یہاں تک کہ 18 دسمبر 2019 کو ہماری بہادراور پیاری بیٹی ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی۔
آج جب بھی کوئی مجھ سے یہ پوچھتا ہے کہ معجزہ کسے کہتے ہیں تو میرا جواب ہوتا ہے کہ اپنی پیاری بیٹی کو خود منوں مٹی تلے دفن کر کے زندہ رہنا ایک معجزہ ہی تو کہلاتا ہے۔

یہ پوسٹ آپ کو کیسی لگی؟ نیچے کمنٹ لازمی کریں اور اپنی رائے دیں