سی سیکشن، ایک ٹرینڈ یا پاکستان میں حاملہ خواتین کی جان کا دشمن

0
818 views
پاکستان میں سی سیکشن
Spread the love
آج کل پاکستان میں حاملہ عورتوں کی جانوں کے ساتھ ایک خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے اور اس کھیل کا نام سی سیکشن یعنی آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش ہے اور پاکستان میں کچھ عرصے سے یہ عام بات ہوگئی ہے۔
حاملہ عورتوں کو زبردستی ڈرا دھمکا کر اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ بچوں کی پیدائش کے وقت آپریشن کروائیں۔
حضرت آدم ؑ اور بی بی حوا کے ملاپ سے انسانی نسل پھیلی اور بچوں کی پیدائش کا خاص عمل عورت کے رحم سے حضرت آدمؑ سے لیکر آج تک اسی فطری عمل کے طریقے سے ہوتا آرہا ہے اور یہ عمل نہ صرف انسان بلکہ تمام جانوروں اور دوسری مخلوقات سے بھی ہوتا آرہا ہے۔ مگر اب چند وحشی ڈاکٹروں نے یہ تبدیلی لائی ہے کہ آج کل 70 فیصد بچوں کی پیدائش آپریشن کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ ذرا سوچیے کہ باقی تمام مخلوقات مثلاً کتا،بلی، ہاتھی، شیر وغیرہ ہر ایک کے یہاں بچے کی پیدائش کا عمل فطری طریقے سے ہوتا آرہا ہے جیسا کہ پہلے بھی ہوتا آرہا تھا تو پھر صرف انسان ہی کیوں ان وحشی اور قصائی نما ڈاکٹروں کی ہوس اور لالچ کا شکار ہو۔
آج کل ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خوراک اتنی بیکار اور غذائیت والی نہیں ہے جیسا کہ پہلے ہوا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ماں اور بچہ اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ آپریشن کے بغیر مائیں اپنے بچوں کو پیدا کریں۔ جہاں تک ناقص خوراک کا سوال ہے تو یہ معاملہ صرف انسانوں کے ساتھ ہی کیوں ہے۔ جانور بھی تو ناقص خوراک یوریا اور کیمیکل سے تیار کردہ گھاس پھوس کھا رہے ہیں۔ کتا اور بلی بھی فارمی مرغی کی ہڈیاں اور گوشت کھا رہے ہیں مگر وہ تو آپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔ تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ آج کل کے ڈاکٹروں کو پیسے کی ہوس اور لالچ ہوگئی ہے اور ان کا مقصد صرف اور صرف پیسے کمانا ہے نہ کے انسانیت کی خدمت کرنا بلکہ اسے ذبح کرنا ہے۔
آجکل پیدائش کے وقت نفسیاتی طور پر اور پہلے سے عورت کو اتنا ڈرایا اور ہراساں کیا جاتا ہے کہ وہ خود آپریشن کروانے پرمجبور ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس کےذریعے اچھی خاصی رقم مریض کی جیب سے نکلوائی جا سکتی ہے۔
آپریشن کروانا اچھا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس طرح ماں اور بچہ دونوں عمر بھر کے لیے کئی قسم کی بیماری اور مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور جدید تحقیق کے بعد یہ بتایا جارہا ہے کہ جو بچے آپریشن سے پیدا ہوتے ہیں وہ پانچ سال کی عمر تک پہچنے سے پہلے ہی موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں بنسبت نارمل طریقے سے پیدا ہونے والے بچے ۔ اسکے علاوہ ان بچوں کو دمہ کی بیماری ہونے کا بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
پاکستان میں سی سیکشن
ایک رپورٹ کے مطابق جو خواتین آپریشن کے ذریعے بچہ پیدا کرتی ہیں ان میں دوبارہ اسقاط حمل ہونے اور بانجھ پن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق آپریشن کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کو اسکے نقصانات کی وجوہات کے سبب زچگی کا سب سے نا پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔
لاہور میں موجود پنجاب کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال سر گنگا رام ہسپتال میں ہر سال تقریبا ۲۵ ہزار بچوں کی پیدائش ہوتی ہے اور اعداد وشمار کے مطابق ان میں سے ۵۰ فیصد بچوں کی پیدائش آپریشن کے ذریعے ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق سی سیکشن صرف اسی صورت میں ہونا چاہیے کہ جب ماں اور بچے کی جان کو خطرہ ہو کیوں کہ جب پیٹ کاٹ دیا جاتا ہے تو اس میں نہ صرف انفیکشن ہو سکتا ہے بلکہ زخم بھی جلدی نہیں بھرتا اس کے علاوہ بعض اوقات خون بھی نہیں رکتا اور پیٹ میں مستقل درد کی شکایت بھی اکثر وبیشتر رہنے لگتی ہے۔
اگر پہلا بچہ آپریشن سے ہوتا ہے تو اس کے بعد یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ بعد میں آنے والے بچے بھی آپریشن سے ہی ہونگے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے۔ کیونکہ نارمل ڈیلیوری میں 10 ہزار کا خرچہ آتا ہے لیکن اگر آپریشن کیا جائے تو اس پر 30 ہزار سے لیکر 1 لاکھ روپے تک کا خرچہ آجاتا ہے۔ پاکستان حکومت کو چاہیے کہ غیر ضروری آپریشن کے خلاف سخت سے سخت اقدامات اٹھائے تاکہ کسی بھی خواتین کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔