زندگی میں چیلنجز کا سامنا ہر کسی کو ہوتا ہے۔ عام افراد کے نسبت جسمانی طور پر معذور افراد کے لئے یہ چیلنجز دُگنے اور زیادہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ اگر رب کائنات کسی میں اگر کوئی کمی رکھتا ہے تو کہیں نہ کہیں اسے بہت زیادہ سے بھی نوازتا ہے۔انہی میں سے ایک اثنا جاوید جیسی باہمت خاتون بھی شامل ہیں۔جوکہ پیدائشی طور پر ہاتھوں سے محروم ہیں۔مگر قابلیت میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ یہ ہاتھوں کے بجائے اپنے پیروں کی مدد سے لیپ ٹاپ چلاتی ہیں اور کمپیوٹر ایکسپرٹ ہیں۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ٹیکنولوجی کی دنیا میں اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کو منوارہی ہیں اور ایک بین الاقوامی ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔
وائس آف امریکہ (وی او اے) سے گفتگو کرتے ہوئے اثنا جاوید نے بتایا کہ ان کی زندگی ایک جدوجہد ہے۔ کیونکہ لوگ بازو نہ ہونے کی وجہ سے ان کی قابلیت پر شک کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لوگ پوچھتے ہیں آپ کوڈنگ کیسے کرتی ہیں ، آپ کے تو بازو نہیں ہیں؟ تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ کوڈنگ بازو سے نہیں دماغ سے کی جاتی ہے اور جب تک دماغ چل رہا ہے تو آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ ہماری صلاحیتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ہم دیکھنے میں کیسے ہیں۔انہوں نے اپنی ملازمت کے بارے میں بتایا کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ڈس ایبل ہونے کی وجہ سے “آئی بی ایم “ میں جاب ملی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ معذور ضرور ہیں مگر باصلاحیت اور قابل ہیں جبھی یہ جاب کررہی ہیں۔ ان کے پاس ٹیلنٹ ہے اس لئے وہ عام لوگوں کی طرح اپنے ہاتھوں کے بجائے پیروں سے کمپیوٹر آپریٹ کرتی ہیں۔
وی او اے سے بات چیت کہ دوران انہوں نے بتایا کہ ان کی اس محرومی کے بارے میں گھر میں کبھی کوئی بات نہیں کی جاتی اور اگر کوئی باہر والا ایسا کہہ دے کہ اثنا کے تو ہاتھ نہیں ہیں تو اس بات کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ نے ان کو کبھی اس محرومی کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔ کبھی دوسروں پر انحصار کرنا نہیں سیکھایا بلکہ خودمختار بنایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج وہ کسی بھی کام کے لئے دوسروں کی محتاج نہیں ہیں۔ چائے بنانے سے لے کر کمپیوٹر چلانے تک کا ہر کام وہ خود کرتی ہیں۔اثنا جاوید سمجھتی ہیں کہ دوسروں کو اس بات سے فرق نہیں پڑنا چاہیئے کہ آپ کیسے نظر آتے ہیں اصل میں اہم بات یہ ہے کہ جسمانی طور پر معذور انسان میں موجود ٹیلینٹ کو ترجیح دیں کہ اس میں کیا قابلیت ہے؟ کیا اسکلز ہیں؟ اور وہ کتنا آگے جاسکتا ہے؟
اپنے بچپن کے بارے میں دوران گفتگو بتایا کہ ان کا بچپن بالکل نارمل بچوں جیسا ہی تھا۔ جس میں کھیل کود تھا۔ اور اپنا بچپن انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر خوب انجوائے کیا ہے۔ مزید انہوں نے اپنے مستقبل کے پلان کے بارے میں بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ وہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو ٹیکنالوجی کی طرف لائیں تاکہ وہ بھی اپنی صلاحیتیں منوا سکیں۔ اس کے علاوہ وہ دنیا گھومنے کا بھی کافی ذوق وشوق رکھتیں ہیں اور وہ اپنا یہ شوق اور خواب کو ضرور پورا کرنا چاہتی ہیں۔
View this post on Instagram