اقرارالحسن کا بیٹی نہ ہونے پر شکر ادا کرنا ٹھیک ہے یا پھر شاہد آفریدی کا اپنی بیٹیوں کو خوش نصیبی سمجنا سہی ہے

0
980 views
iqrar ul hasan and shahid afridi
Spread the love
چودہ اگست والے دن ٹک ٹاکر عائشہ کے ساتھ مینار پاکستان پر ہونے والے شرمناک واقعے نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس واقعے نے پاکستان میں عورتوں کی حیثیت، تحفظ اور عزت کے حوالے کے ساتھ ساتھ مردوں کے کردار پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔
ٹک ٹاکر عائشہ کا پہلا انٹرویو یاسر شامی اور اقرار الحسن نے لیا۔ جس میں انہوں نے عائشہ سے اس سارے واقعات کی جانکاری حاصل کی۔ اس واقعے کے بعد عائشہ پہلی بار یاسر شامی اور اقرار الحسن کو انٹرویو دینے کے لیے منظر عام پر آئی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح وائرل ہو گئی۔ اقرار الحسن کے لحاظ سے تو یہ سب کو معلوم ہے کہ اللہ نے ان کو ایک ہی نرینہ اولاد سے نوازا ہے۔ مگر اس انٹرویو کے آخر پر اقرار الحسن نے شدید جذبات میں آکر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے بیٹی نہیں دی اور یہ بات انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کی۔

دوسری جانب کے پی ایل کی کامیاب ٹیم کے کپتان نے اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنی بیٹیوں کے سر رکھا۔ واضح رہے کہ مشہور کرکٹر شاہد آفریدی پانچ بیٹیوں کے باپ ہیں اور ان کا اپنی بیٹیوں کے ساتھ مضبوط تعلق دنیا والوں کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔

شاہد آفریدی اقرار الحسن کے اس بیان کے بعد لوگوں نے ان کا موازنہ شاہد آفریدی کے اس بیان سے کروانا شروع کر دیا ہے کہ جس میں انہوں نے اپنی بیٹیوں کو اپنی کامیابی کا راز قرار دیا تھا۔ لوگوں کے مطابق ایک کو انھوں نے زیرو جب کہ دوسرے کو ہیرو قرار دیا۔
مزید اس حوالے سے چند افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ 14 اگست کو جو واقعہ پیش آیا وہ سارا پری پلان تھا اور اس پلاننگ میں اقرار الحسن کے شامل ہونے کی خبریں بھی آرہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عائشہ کا سب سے پہلا انٹرویو بھی انہوں نے ہی کیا۔ مزید اس حوالے سے اقرار الحسن کی ایک اور ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ جس میں انہوں نے ان تمام الزامات کو جھٹلایا ہے۔
کچھ لوگ تو یہ مطالبہ کرتے ہوئے بھی نظر آئے ہیں کہ اقرار الحسن کو مردوں کے امیج کو خراب کرنے کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔

اگرچہ سانحہ مینار پاکستان ایک بد ترین اور افسوسناک واقعہ تھا اور اس واقعہ نے ملک کی عزت اور اس کے وقار کو سرعام توہین کیا ہے۔ مزید اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک نئی جنگ چھڑ گئی ہے کہ جس میں ایک طبقہ عائشہ کی حمایت میں ہیں اور 400 مردوں کے ساتھ ساتھ ہر اس فرد کو مورد الزام ٹہرا رہے ہیں جو مردوں کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف عائشہ کی ٹک ٹاک ویڈیوز کو بنیاد بنا کر کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا اور ہر اس فرد کے خلاف تلوار لے کر نکلنے کو تیار ہیں جو عائشہ کی حمایت میں بول رہے ہیں۔ان میں ایک مثال اقرار الحسن کی بھی ہے۔
 بہرحال چاہے غلطی کسی کی بھی ہو پر اس واقعے کے بعد نہ تو سارے مرد بدکردار اور ہوس کے پجاری ثابت ہوتے ہیں اور نہ ہی ساری عورتیں بے حیا اور یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کو دانشمندی اور عقل و شعور کی نظر سے دیکھنے کی اشک ضرورت ہے۔