پاکستان کے وجود میں آنے کی وجوہات اور اس کا تاریخی پسمنظر

0
1,154 views
پاکستان کا قیام: اغراض و مقاصد اور تاریخی پس منظ
Spread the love
آج پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی ارض پاک وطن مملکت خدا داد پاکستان کا 73واں یوم آزادی منارہے ہیں، پاکستان14 اگست 1947ء کو ایک آزاد مسلم ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر سامنے آیا۔ قیام پاکستان کیلئے جہاں سیاسی جدوجہد کی تاریخ رقم ہیں، وہاں ہزاروں افراد کا خون بھی ارض پاک کی بنیادوں میں شامل ہے۔
برصغیر ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت کے خلاف مسلمانوں نے لاتعداد تحریک چلائیں، لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی مدبرانہ قیادت میں پاکستان کے قیام کا خواب سچ ہوا اور آج ہم ایک آزاد فضاء میں زندہ ہیں۔ آزادی خداوند کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ، آزادی کی قدر وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں جو آج بھی غیروں کی غلامی میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

اغراض و مقاصد:

اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش،اسلامی معاشرے کا وجود،اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تحفظ،اسلامی جمہوری نظام کے قیام کا مطالبہ، دو قومی نظریہ کا تحفظ، اردو زبان کا تحفظ و وجود، ترقی،مسلم تہذیب و ثقافت کی ترقی،مسلمانوں کی آزادی، مسلمانوں کی معاشی بہتری، مسلمانوں کی سیاسی و معاشی ترقی، ہندوؤں کے تعصب چالیں اور کانگرس سے نجات،رام راج اورانگریزوں سے نجات، پر امن فضا ء کا قیام، اسلام کا قلعہ، ملی و قومی اتحاداوراتحاد عالم اسلام ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کے بنیادی اغراض و مقاصد تھے۔

دو قومی نظریہ:

قیام پاکستان کیلئے اٹھنے والی تحریک کا مقصد مسلمانوں کے قومی تشخص اور مذہبی ثقافت کے تحفظ کی وہ تاریخی جدوجہد تھی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بحیثیت قوم شناخت کو ایک علیحدہ وطن کی حیثیت سے منوانا تھا جس کیلئے ایک الگ مملکت کا قیام بہت ضروری تھا۔
بر صغیر میں حضرت مجدد الف ثانی پہلے بزرگ تھے جنہوں نے دو قومی نظریہ  پیش کیا، اس کے بعدشاہ ولی اللہ، سر سید احمد خان ، علامہ اقبال اور دیگر علمائے کرام نے نظریہ پاکستان کی وضاحت پیش کی جبکہ بر صغیر میں مختلف مسلم ادارے اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے اور کئی تحریکیں اسی نظریے کے پرچار کے لیے وجود میں آئیں ۔

تاریخی پس منظر:

بادی النظر میں تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23مارچ 1940ء کے جلسے کو قرار دیا گیا، جوکہ لاہور میں ہوا۔لیکن اس کی اصل شروعات تب ہوئی جب مسلمانانِ ہند نے کانگریس سے اپنی راہیں علیحدہ کیں۔ 1930ء میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغرب میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور اُجاگر کیا اورچوہدری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933ء میں پاکستان کا نام دیا۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938ء میں اپنے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کی تقسیم کے حق میں قرارداد پاس کی۔
 قائد اعظم 1930ء میں الگ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے اور1940ء انہوں نے قوم کو بھی اس کیلئے ذہنی طور پر تیار کر لیا تھا ۔ 23 مارچ 1940 کولاہور میں ایک قرارداد منظور ہوئی، جس کے مطابق مسلمانان ہند نے انگریزوں سے آزادی کے علاوہ ہندوؤں سے الگ ریاست کا مطالبہ بھی کیا ۔ جبکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قرار دار لاہور کے صدارتی خطبے میں اسلام اور ہندو مت کو دو مختلف معاشرتی نظام اور دو الگ الگ ریاستوں کے طور پر پیش کیا۔

پاکستان کا قیام:

ہندوستان کی سرزمین پر صدیوں مسلمانوں کی حکومت رہی، جبکہ ہندو مسلم بادشاہوں کی رعایا رہے۔ تاہم ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کے بعد ہندوؤں نے انگریزوں سے قربت و واقفیت حاصل کرلی، لیکن انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا، تو اس پر ردعمل بھی لازمی تھا اس لئے ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں سے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا کیونکہ مسلمانوں کو صرف حکومت سے ہی محروم نہیں کیا گیا تھا، بلکہ وسائل کے اعتبار سے بھی وہ بہت پیچھے ہوگئے تھے۔
3جون 1947ء کومسلمانانِ برصغیر کی جدو جہد رنگ لائی اور برطانیہ کے آخری وائسرائے ہند ایڈمرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کی تاریخ یعنی 14اگست 1947ء کا باقاعدہ اعلان کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اعلان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے ریڈیو پر تقریر کی اور آخر میں بے پناہ جذبے اور ولولے اور خوشی سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا یا اور مسلمانان ہند کی تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں 14اگست 1947ءکو اس کا وجود سچ ثابت ہوا۔