تین دسمبر2021 کے روز سیالکوٹ میں پیش آنے والا دردناک واقعہ جو کہ ایک سری لنکن کے ساتھ توہین کے مزہب کے الزام میں رونما ہوا۔اس حادثے میں اس سری لنکن فیکٹری مینیجر کو سب کے سامنے انتہائی بے رحمی سے زندہ جلا دیا گیا تھا۔پریانتھا کمارا کا تعلق سریلنکا سے تھا اور وہ سنہ 2010 میں پاکستان آئے تھے جہاں انہوں نے فیصل آباد کریسنٹ ٹیکسٹائل کمپنی میں انڈسٹریل انجینئرنگ مینیجر کی حیثیت سے نوکری کرتے تھے اور پاکستان ہی میں مقیم تھے لیکن ان کی بیوی اور بچے پاکستان سے واپس سری لنکا چلے گئے تھے۔ان کی عمر50 سال تھی۔انھوں نے سری لنکا کی ایک یونی ورسٹی سے انجینئرنگ مینجمنٹ کی تعلیم مکمل کی تھی۔
مقتول پریانتھا پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں ملازمت کر رہے تھے مگر وہ اپنے خاندان کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ان کی اہلیہ نیروشی دسانیاکے ان کی ذات کا ذکر سخت صںدمے میں کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر ایک سیدھے سادے انسان تھے۔ وہ اپنے دکھ کا مزید اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے شوہر کے قتل کی خبر ٹی وی پر دیکھی۔ کوئی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا کہ جس شخص کو انسان سب سے زیادہ چاہتا ہے اس کی موت کی خبر ٹی وی پر سنے اور اس کے گھر والوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوگا کہ ان ہنگامی صورتحال میں ہمارا پیارا ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ چکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس نے انٹرنیٹ پر دیکھا کہ اس کے شوہر کو کس بےدردی سے قتل کیا گیا۔ انہوں نے پاکستان اور سری لنکا کے وزرائے اعظم سے منصفانہ درخواست کی ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ مقتول کے بھائی کمالا سری شانتا کمارا کہتے ہیں ان کے بھائی نے وہاں کا سارا انتظام سنبھالا ہوا تھا، کمالا سری کے مطابق ان کے بھائی کی قتل کی وجہ محض فیکٹری میں لگائے جانے والا ایک تنظیم کے پوسٹر کو پھاڑنا تھا، اور اسی وجہ کو تلاش کرنے کے لیے ہڑتال کی گئ۔
ملازمین کے ساتھ سلوک:
فیکٹری ملازمین کے ساتھ پریانتھا کمارا نہایت اچھے طریقے سے پیش آتے تھے۔ فیکٹری میں کام کرنے والی ملازمین یعنی لڑکیاں بھی ان کی بہت تعریف کرتے ہوئےکہتی ہیں کہ ہم چھے سال سے یہاں کام کر رہے ہیں اور ایسا محسوس ہی نہیں ہوا ک ہم یہاں ملازم ہیں یعنی پریانتھا نہایت اچھے اخلاق کے مالک تھے یہی وجہ ہے ک ملازم بھی ان کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ خواتین کے حوالے سے بہت ہی حساس تھے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی خواتین کو کوئی شکایات پیش آتی وو اسے فوری طور پر دور کرتے۔ والدہ ان کی اچھائی بیان کرتے ہوۓ کہتی ہیں کہ جب بھی خواتین کو تنگ کرتا تو اس کے ساتھ ان کا کا رویہ انتہائی سخت ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر ہم بیمار ملازمین کی بات کریں تو ان کے بیمار ہونے پر وہ نہ صرف خود ان کی عیادت کو جایا کرتے تھے بلکہ مالی لحاظ سے بھی ان کی مدد کرتے تھے۔