بیٹیوں کو صدیوں سے ہی ایک بوجھ سمجھا جا رہا ہے مگر یہ بوجھ نہیں ہوتیں بلکہ یہ تو گھر کے گلزار میں کھلا ایک ایسا پھول ہوتی ہیں کہ جس کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک اور سکون ملتا ہے اور تو اور یہ بیٹیاں ہی ہوتی ہیں کہ جو اپنے والدین کے مشکل حالات کو اپنا سمجھتی ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ وقت آنے پر وہ ایک بیٹا بن کر اپنے والدین کی مشکلات اور پریشانیوں کا خاتمہ کرنے کی ہر ممکن حد تک کوشش بھی کرتی ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ ملتان شہر کی رہائشی ایک باہمت بیٹی ماریہ خالد کا بھی ہے کہ جس نے اپنے والد سے بےپناہ اور لازوال محبت کی ایک مثال قائم کی اور ایسی محبت نہ پہلے کبھی کسی نے دیکھی اور نہ ہی سنی ہوگی۔ ماریہ اپنے والد کا بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بازو بن گئیں ہیں اور وہ اپنے والد کے ساتھ مل کر لوگوں کے گھروں میں سفیدیاں، رنگ روغن اور پینٹ کرتی ہے۔
ڈیلی پاکستان چینل کو مخاطب کرتے ہوئے ماریہ نے بتایا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں ہے اس لئے وہ اپنے والد صاحب کا بازو بن گئیں اور یہ ثابت کردیا کہ بیٹیاں بیٹوں سے کم نہیں ہوتیں اور اگر ان پر بھروسہ اور اعتماد کیا جائے تو وہ بھی بیٹے سے بڑھ کر ہر کام کرسکتی ہیں۔ مزید ماریہ کہتی ہیں کہ جب وہ 10 سال کی تھیں تو ان کے ابا جان کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی اور اسی وجہ سے ان کے خاندان کو بہت سی مالی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے ابا جان دل کے مریض ہیں ان کو کام تو بہت ملتا تھا مگر وہ اپنی طبعیت کی وجہ سے زیادہ محنت اور مشقت نہیں کر سکتے تھے۔ اور ماریہ چونکہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں تو اس پریشانی کے وقت میں انھوں نے اپنے ابا کا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ ان کا بازو بن کر کھڑی ہوئیں۔
یہ سچ ہے کہ ماریہ صنف نازک ہیں۔ مگر وہ اپنی لگن ،محنت اور مشقت سے آج اپنے والد کا سب سے بڑا سہارا ہیں۔ بہت چھوٹی سی عمر میں انہوں نے اپنے ابا جان کے ساتھ رنگ وروغن کا کام کروانا شروع کیا اور آج وہ اپنےابا جان کی طرح ایک بہترین اور ماہر کاریگروں میں سے ایک کاریگر بن گئی ہیں۔ ماریہ اپنے ابا جان کی سرپرستی میں روزانہ صبح سے لے کر رات تک لوگوں کے گھروں کی دیواروں پر سفیدیاں، رنگ روغن کرکے ناصرف اپنا بلکہ اپنے ماں باپ اور تین بہنوں کا بھی پیٹ پال رہی ہیں اور گزر بسر کر رہی ہیں۔ اور ان کا کہنا ہے کہ لوگ بیٹیوں کو بوجھ کیوں سمجھتے ہیں جبکہ بیٹیاں بھی بیٹا بن سکتیں ہیں۔ بس صرف ان پر اعتماد کرنے اور ان کو موقعہ دینے کی ضرورت ہے اور یہی میرے والد صاحب نے مجھ پر کیا اور آج میں نے انہیں ان کا بیٹا بن کر دیکھایا ہے۔
انیس سالہ دوشیزہ ماریہ خالد صرف اپنے ابا جان کے کام میں شانہ بشانہ نہیں بلکہ گھر کے دیگر گھریلو کام کاج بھی نہایت ہی نفاست، عمدگی اور بہترین طریقے سے پورا کر رہی ہیں اور اپنے والدین کی ایک نیک اور فرمانبردار اولادوں میں سے ایک ہیں۔ ان کےا والد کا کہنا ہے کہ میری بیٹی میرا غرور ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔ اتنا ساتھ تو آج کل بیٹے بھی نہیں دیتے کہ جتنا یہ میرا ساتھ دے رہی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدرت کی طرف سے بیٹی کا دنیا میں پہلا روپ ہی رحمت ہے اور وہ سب خاندان والوں کے دلوں پر راج کرتی ہے۔ اگر بہن ہوتی ہے تو بھائی کی سچی اور مخلص دوست اور خیرخواہ ہوتی ہے اور ماں کا بازو بن کر رہ جاتی ہے۔ بیوی ہوتی ہے تو ایک مضبوط،پختہ اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والی ہوتی ہے اور جب وہ ایک ماں بنتی ہے تو اللہ اس کا رتبہ اتنا بلند کر دیتا ہے کہ جنت کو اٹھا کراس کے قدموں تلے ڈال دیتا ہے لیکن پھر بھی ہمارا معاشرہ بیٹی کو ایک بوجھ سمجھتا ہے جوکہ انتہائی غلط ہے۔ ماریہ خالد جیسی ہونہار، محنت اور مشقت کرننے والی اور حق حلال کی روزی کمانے والی ایسی باہمت بیٹیاں جو معاشرے کی اس سوچ کو غلط ثابت کررہی ہیں کہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں بلکہ ہمارے معاشرے میں موجود انتہائی عجیب وغریب، فضول ترین، فرسودہ اور بے بنیاد رسوم و رواج کے پیشنظر انہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی حال ہی میں ایک اور ایسی ہی باہمت خاتون اور بیوی کی کہانی سامنے آئی ہی کہ ، جنہیں ناصرف پاکستان کی پہلی موبائل مکینک ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے بلکہ وہ اپنے شوہر کے کندھے سے کندھا ملا کر ان کا ہاتھ بھی بٹارہی ہیں۔ فیصل آباد کی رہائشی عاصمہ نے موبائل ریپیرنگ کا باقاعدہ کورس کیا اور سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد اب اپنی دکان کھولی ہے۔