باپ کا مضبوط سہارا ماریہ خالد، جو گھر کی دیواروں پر سفیدیاں اور پینٹ کرتی دکھائی دے رہی ہیں

0
992 views
باپ کے ساتھ گھروں کے دور دیوار پر سفیدیاں اور پینٹ کرتی ماریہ خالد
Spread the love
بیٹیوں کو صدیوں سے ہی ایک بوجھ سمجھا جا رہا ہے مگر یہ بوجھ نہیں ہوتیں بلکہ یہ تو گھر کے گلزار میں کھلا ایک ایسا پھول ہوتی ہیں کہ جس کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک اور سکون ملتا ہے اور تو اور یہ بیٹیاں ہی ہوتی ہیں کہ جو اپنے والدین کے مشکل حالات کو اپنا سمجھتی ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ وقت آنے پر وہ ایک بیٹا بن کر اپنے والدین کی مشکلات اور پریشانیوں کا خاتمہ کرنے کی ہر ممکن حد تک کوشش بھی کرتی ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ ملتان شہر کی رہائشی ایک باہمت بیٹی ماریہ خالد کا بھی ہے کہ جس نے اپنے والد سے بےپناہ اور لازوال محبت کی ایک مثال قائم کی اور ایسی محبت نہ پہلے کبھی کسی نے دیکھی اور نہ ہی سنی ہوگی۔ ماریہ اپنے والد کا بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بازو بن گئیں ہیں اور وہ اپنے والد کے ساتھ مل کر لوگوں کے گھروں میں سفیدیاں، رنگ روغن اور پینٹ کرتی ہے۔
باپ کے ساتھ گھروں کے دور دیوار پر سفیدیاں اور پینٹ کرتی ماریہ خالد
Image Source: Screengrab
ڈیلی پاکستان چینل کو مخاطب کرتے ہوئے ماریہ نے بتایا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں ہے اس لئے وہ اپنے والد صاحب کا بازو بن گئیں اور یہ ثابت کردیا کہ بیٹیاں بیٹوں سے کم نہیں ہوتیں اور اگر ان پر بھروسہ اور اعتماد کیا جائے تو وہ بھی بیٹے سے بڑھ کر ہر کام کرسکتی ہیں۔ مزید ماریہ کہتی ہیں کہ جب وہ 10 سال کی تھیں تو ان کے ابا جان کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی اور اسی وجہ سے ان کے خاندان کو بہت سی مالی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے ابا جان دل کے مریض ہیں ان کو کام تو بہت ملتا تھا مگر وہ اپنی طبعیت کی وجہ سے زیادہ محنت اور مشقت نہیں کر سکتے تھے۔ اور ماریہ چونکہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں تو اس پریشانی کے وقت میں انھوں نے اپنے ابا کا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ ان کا بازو بن کر کھڑی ہوئیں۔
باپ کے ساتھ گھروں کے دور دیوار پر سفیدیاں اور پینٹ کرتی ماریہ خالد
Image Source: Screengrab
یہ سچ ہے کہ ماریہ صنف نازک ہیں۔ مگر وہ اپنی لگن ،محنت اور مشقت سے آج اپنے والد کا سب سے بڑا سہارا ہیں۔ بہت چھوٹی سی عمر میں انہوں نے اپنے ابا جان کے ساتھ رنگ وروغن کا کام کروانا شروع کیا اور آج وہ اپنےابا جان کی طرح ایک بہترین اور ماہر کاریگروں میں سے ایک کاریگر بن گئی ہیں۔ ماریہ اپنے ابا جان کی سرپرستی میں روزانہ صبح سے لے کر رات تک لوگوں کے گھروں کی دیواروں پر سفیدیاں، رنگ روغن کرکے ناصرف اپنا بلکہ اپنے ماں باپ اور تین بہنوں کا بھی پیٹ پال رہی ہیں اور گزر بسر کر رہی ہیں۔ اور ان کا کہنا ہے کہ لوگ بیٹیوں کو بوجھ کیوں سمجھتے ہیں جبکہ بیٹیاں بھی بیٹا بن سکتیں ہیں۔ بس صرف ان پر اعتماد کرنے اور ان کو موقعہ دینے کی ضرورت ہے اور یہی میرے والد صاحب نے مجھ پر کیا اور آج میں نے انہیں ان کا بیٹا بن کر دیکھایا ہے۔
انیس سالہ دوشیزہ ماریہ خالد صرف اپنے ابا جان کے کام میں شانہ بشانہ نہیں بلکہ گھر کے دیگر گھریلو کام کاج بھی نہایت ہی نفاست، عمدگی اور بہترین طریقے سے پورا کر رہی ہیں اور اپنے والدین کی ایک نیک اور فرمانبردار اولادوں میں سے ایک ہیں۔ ان کےا والد کا کہنا ہے کہ میری بیٹی میرا غرور ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔ اتنا ساتھ تو آج کل بیٹے بھی نہیں دیتے کہ جتنا یہ میرا ساتھ دے رہی ہے۔
باپ کے ساتھ گھروں کے دور دیوار پر سفیدیاں اور پینٹ کرتی ماریہ خالد
Image Source: Screengrab
انھوں نے مزید کہا کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدرت کی طرف سے بیٹی کا دنیا میں پہلا روپ ہی رحمت ہے اور وہ سب خاندان والوں کے دلوں پر راج کرتی ہے۔ اگر بہن ہوتی ہے تو بھائی کی سچی اور مخلص دوست اور خیرخواہ ہوتی ہے اور ماں کا بازو بن کر رہ جاتی ہے۔ بیوی ہوتی ہے تو ایک مضبوط،پختہ اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والی ہوتی ہے اور جب وہ ایک ماں بنتی ہے تو اللہ اس کا رتبہ اتنا بلند کر دیتا ہے کہ جنت کو اٹھا کراس کے قدموں تلے ڈال دیتا ہے لیکن پھر بھی ہمارا معاشرہ بیٹی کو ایک بوجھ سمجھتا ہے جوکہ انتہائی غلط ہے۔ ماریہ خالد جیسی ہونہار، محنت اور مشقت کرننے والی اور حق حلال کی روزی کمانے والی ایسی باہمت بیٹیاں جو معاشرے کی اس سوچ کو غلط ثابت کررہی ہیں کہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں بلکہ ہمارے معاشرے میں موجود انتہائی عجیب وغریب، فضول ترین، فرسودہ اور بے بنیاد رسوم و رواج کے پیشنظر انہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی حال ہی میں ایک اور ایسی ہی باہمت خاتون اور بیوی کی کہانی سامنے آئی ہی کہ ، جنہیں ناصرف پاکستان کی پہلی موبائل مکینک ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے بلکہ وہ اپنے شوہر کے کندھے سے کندھا ملا کر ان کا ہاتھ بھی بٹارہی ہیں۔ فیصل آباد کی رہائشی عاصمہ نے موبائل ریپیرنگ کا باقاعدہ کورس کیا اور سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد اب اپنی دکان کھولی ہے۔