14 اگست جو کہ ہماری آزادی کا دن ہے اور یہ دن منانا تو اس ملک میں رہنے والے ہر فرد کا حق ہے بشرط یہ کہ پر مہذب انداز میں یہ دن منایا جائے۔پچھلے کچھ سالوں سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ 14 اگست پر منچلے اور چھچھورے نوجوان یا تو قائداعظم کے مزار پر چڑھ جاتے ہیں ،یا کبھی سڑکوں اور پارکوں پر خواتین کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے یا ان کو چھیڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ اب تو بچے بھی 14 اگست والے دن لوگوں کو باجا بجا بجا کر انھیں تنگ کرنے میں آگے آگے ہوتے ہیں اور یہ بد تمیزی برداشت کرنا بھی عوام کیلئے بے حد مشکل اور ایک بڑا مسئلہ ہے ۔
اس 14 اگست پر ایک ایسا ہولناک اور شرمناک واقعہ پیش آیا ہے کہ جس پر پوری قوم شرمندہ ہے اور پوری قوم کی آنکھیں اور سر مارے شرم و حیاء کے جھک گئے ہیں۔ لاہور میں مینار پاکستان کے “گریٹر اقبال” پارک میں نامور ٹک ٹاکر عائشہ اکرم نامی ایک لڑکی کے ساتھ یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔وہ بتاتی ہیں کہ 400 سے زیادہ لوگ ان کے ساتھ انتہائی بدتمیزی اور غیر اخلاقی انداز میں ان سے پیش آئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعئے ہر جگہ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتے ہی وائرل ہوگئی ہے۔
پنجاب کے شہر لاہور کے علاقے شاہدرہ ٹاؤن کی رہائشی عائشہ اکرم نامی نامور ٹک ٹاکر 14 اگست والے دن اپنے 6 ساتھیوں کے ہمراہ 14 اگست والے دن اس دن کی مناسبت سے ویڈیوز شوٹ کر رہی تھیں کہ اچانک چھچھورے نوجوانوں کے ایک گروپ نے ان پر حملہ کردیا اور بدتمیزی کرنا شروع کردی۔چند لڑکے انہیں اپنی طرف کھینچنے لگے تو کوئی انہیں جسمانی طور پر ٹارچر کر نے لگے اور اس طرح دیکہھتے ہی دیکھتے کچھ ہی دیر میں مینار پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں موجود 400 نوجوان انکی جانب ہی آ گئے اور آخرکار وہی ہوا کہ جس کا ڈر تھا کوئی بدتمیز نے انہیں ہوا میں اچھالتا تو کوئی انہیں جسمانی طور پر ٹارچر کرنے کی کوشش میں لگا رہا اور کئی نوجوانوں نے تو بدتمیزی کی اور غیر اخلاقی حرکتیں کرنے کی حد ہی کر دی۔ انہیں اپنے کندھوں پر بٹھا لیا ۔وہ چیختی چلاتی رہیں روتی رہیں اور مدد کے لیے بلاتی رہیں پر کسی نے ان پر رحم نہ کھایا اور نہ ان کی بات سنی۔انھوں نے انسان نما ان بھیڑیوں اور درندوں سے خود کو بچانے کی بہت کوششیں اور جدوجہدیں کیں مگر وہ ناکام رہیں اور بد قسمتی سے انکی عزت کا جنازہ نکلتا رہا۔
ان کا اس واقعہ کے متعلق کہنا ہے کہ جو لوگ مجھے بچا رہے تھے وہی میرے ساتھ زیادتی بھی کر رہے تھے۔انھوں نے مزید کہا کہ میرے ساتھیوں نے 2 مرتبہ پولیس کو 15 پر نہ صرف کال کیا بلکہ ساتھ یہ بھی کہا کہ سر “ہمارے ساتھی خاتون بہت مشکل میں ہیں اور اب بلکل ختم ہوگئی ہے” مگر پولیس پھر بھی مقررہ وقت پر نہ پہنچی۔ ایک اندازے کے مطابق انکی اس جگہ 2 گھنٹے تک عزت کا جنازہ نکلتا رہا۔
اس روایت کو بدلنا ہو گا کہ سرِ راہ لڑکی پر کوئی آوازہ کسے، دست درازی کرے اور وہ اپنے خاندان کی عزت کے نام پر اسے جواب بھی نہ دے۔ عائشہ نے سامنے آ کر، مقدمہ درج کروا کر دنیا کے سامنے اپنا اور پاکستان کی ہر لڑکی کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، آپ اسے سپورٹ نہیں کرسکتے تو خاموش رہئیے https://t.co/DsagOyLkor
— Iqrar ul Hassan Syed (@iqrarulhassan) August 17, 2021